اخترعہدہ,بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دلی12 مار چ 2024انڈیا کی وزارتِ داخلہ نے شہریت کے ترمیمی قانون سی اے اے کے نفاذ کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے جس کے تحت پاکستان سمیت انڈیا کے پڑوسی ملکوں سے آنے والے ہندوؤں اور دیگر اقلیتی گروپوں کے لوگوں کو شہریت دینے کا انتظام کیا جائے گا۔ اگرچہ یہ قانون سنہ 2019 میں منظور کیا گیا تھا لیکن اس کے ضوابط وضع نہیں کیے گئے تھے، تاہم اب ضوابط کے ساتھ اس کے نفاذ کا باضابطہ نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے اُن ہندوؤں، سکھوں، بودھ، جین، پارسی اور مسیحی مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو شہریت دینے کا انتظام ہے جو اپنے مذہب کے باعث ہونے والے ظلم و ستم اور مسائل کے باعث نقل مکانی کر کے انڈیا آ گئے ہیں۔ اس کا اطلاق ان لوگوں پر ہو گا جو دسبمر 2014 تک انڈیا آ گئے تھے اور اس کے بعد یہیں رہ رہے ہیں۔ اس قانون میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں مسلمانوں کے ساتھ تفریق برتی گئی ہے اور اس کا مقصد مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرنا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون کا مقصد شہریت دینا ہے کسی کی شہریت لینا نہیں ہے۔ وزیر داخلہ امت شاہ ماضی میں کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ اس قانون سے کسی کی شہریت چھینی نہیں جائے گی اور اس کا مقصد کسی کے ساتھ تفریق برتنا نہیں ہے۔ وزیر داخلہ نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کا تعلق آسام میں کروائی گئی شہریت کی رجسٹریشن یعنی این آر سی سے نہیں ہے۔ ،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES’جمہوری انڈیا میں یہ پہلا ایسا قانون ہے جس میں شہریت کے تعین کے لیے مذہب کو بنیاد بنایا گیا‘ اس قانون کے نوٹیفیکیشن کے بعد شہریت کے لیے درخواستیں دینے کے لیے ایک پورٹل بنایا جائے گا جس کے ذریعے متعلقہ پڑوسی ملکوں سے آنے والے ہندو اور دوسرے غیر مسلم لوگ شہریت کے لیے آن لائن درخواستیں دے سکیں گے۔ انڈیا کی ریاستوں راجستھان، دلی، آسام، شمال مشرقی ریاستوں اور بنگال میں ہزاروں ہندو، بودھ اور سکھ ایسے ہیں جو پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے یہاں آئے لیکن برسوں اور عشروں تک یہاں رہنے کے باوجود انھیں باضابطہ شہریت نہیں دی جا سکی۔ مگر اب اس قانون کے تحت انھیں تیزی سے شہریت دی جا سکے گی۔ تقر یباً چار برس قبل شہریت کا ترمیمی بل سی اے اے پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے کے بعد اس کے خلاف ملک گیر احتجاج ہوا تھا۔ حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ اس قانون سے سبھی مذاہب کےساتھ برابر کا سلوک کرنے کی آئینی ضمانت کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ کانگریس کے رہنما ششی تھرور نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ ’جمہوری انڈیا میں یہ پہلا ایسا قانون ہے جس میں شہریت کے تعین کے لیے مذہب کو بنیاد بنایا گیا ہے، یہ آئین کے منافی ہے۔‘ تاہم حکومت اس کی تردید کرتی رہی ہے۔ مسلمانوں کو خدشہ ہے کہ اس قانون کے تحت آسام میں این آرسی میں غیر شہری قرار دیے جانے والے لاکھوں ہندوؤں کو جو مبینہ طور پر عشروں پہلے بنگلہ دیش سے آسام آئے، انھیں شہریت دے دی جائے گی لیکن جن لاکھوں مسلمانوں کو غیر شہری کے زمرے میں رکھا گیا ہے انھیں اس قانون سے الگ رکھا جائے گا اور انھيں باضابطہ طور پر غیر ملکی قرار دیا جائے گا اور ان کے تمام شہری حقوق سلب کر دیے جائیں گے۔ حکومت نے یہ ضرور کہا ہے کہ سی اے اے کا تعلق این آر سی سے نہیں ہے لیکن اس نے آسام کے تناظر میں مسلمانوں کے خدشات کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ آسام میں ریاست کے سبھی تین کروڑ 30 لاکھ باشندوں سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنی شہریت کے ثبوت میں مخصوص دستاویزات پیش کریں۔