چروکسی رامدرائیعہدہ,بی بی سی ٹریول4 مار چ 2024خیوا ازبکستان کا ایک چھوٹا سا شہر ہے۔
یہ قراقرم اور قزلقۇم کے صحراؤں میں گھرا ہوا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہاں آپ کس راستے سے آتے ہیں کیونکہ تمام راستے ’ایچھان قلعہ‘ کی فصیل کی طرف جاتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خیوا میں تمام دیکھنے کے قابل جگہیں اس قلعے کی اندر ہی ہیں۔ یہ جگہ 60 سے زیادہ ثقافتی مقامات، قرون وسطی کی مساجد اور شاندار محلات کے ساتھ ساتھ متعدد عجائب گھر، یادگاری دکانوں اور کرافٹ سٹوڈیوز سے بھری ہوئی ہے۔ ’ایچھان قلعہ‘ کے مغربی دروازے (جسے اوٹا دروازہ بھی کہا جاتا ہے) کے قریب ہی ٹکٹ گھر موجود ہے۔ جب میں اس دروازے سے قلعے میں داخل ہوا تو بازار اُس وقت کُھلا تھا۔ بھیڑ کی کھال سے تیار کردہ ٹوپیاں ’چُوگِرما‘ کہلاتی ہیں جنھیں یہاں کے مقامی لوگ سخت سردیوں میں اپنے سروں کو گرم رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جب میں بازار میں داخل ہوا تو ایک چُوگِرما فروش اپنی دکان میں ٹوپیاں سجا رہا تھا۔ تھورا آگے ہی، ایک خاتون کوٹ فروخت کر رہی تھیں۔ میری نظر اُن کے پاس موجود روایتی ’اِکت پرنٹ‘ والے سیاہ سفید رنگ کی ایک جیکٹ پر ٹھہر گئی۔ دوسری جانب، لکڑی پر کندَہ کاری کے ایک ماہِر اپنی کرسی پر بیٹھے لکڑی کی بنی ہوئی خوبصورت شطرنج کی بساط پر کام کرنے میں مشغول تھے۔ قالین بننے میں مصروف خاتون نے ایک لمحے کے لیے ۔ مگر حیران کن طور پر بازار تقریباً خالی تھا اور میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ یہاں کوئی سیاح کیوں نہیں؟ مقامی لوگ اس شہر کو ’حیوا‘ کو پکارتے ہیں۔ ازبکستان میں شاہراہ ریشم پر تین شہر آباد ہیں: بخارا، سمرقند اور خیوا۔ لیکن دارالحکومت تاشقند سے قربت کی وجہ سے بخارا اور سمرقند سیاحوں میں زیادہ مقبول ہیں۔ ان ناموں کا صرف ذکر ہی ان کے شاندار ماضی کی عکاسی کے لیے کافی ہے۔ ایک وقت تھا جب یہ شہر چین سے لے کر روم اور وینس تک پھیلے ہوئے تجارتی راستوں کے بااثر نیٹ ورک کے مراکز تھے۔ 130 قبل مسیح سے لے کر 1453 عیسوی تک تقریباً 1,500 سالوں تک اس وسطی ایشیائی خطے نے نہ صرف ریشم اور مسالوں کے تجارت کے لیے بلکہ ہر قسم کے نظریات اور فلسفے کے لیے بھی شہرت پائی۔